Friday 17 February 2017

زبان خلق

 "زبان خلق کی کہانی"

                                                          تحریر: کنور اسلم شہزاد

                         
گھر میں بیٹھے بور ہو گیا تھا،دھماکہ ہہاںدھماکہ وہاں دھماکہ۔ 8 مر گئے۔13 مر گئے،میرے وطن کے نگھبانوں

پرحملےاور میرے چاک و چوبند،مسلح وطن کے رکھوالے عوام کی حفاظت کر رہے تھے دہشت گردوں نے حملہ

کر کے شہید کر دیا۔عوام کے اجتماع میں حملہ ،نہتے عوام شہید پھر اعلانات کا سلسلہ قیمتی جانوں کے زیاں پر

شدید غم و غصہ کا اظہار۔نیے عزم اور ولولے سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا عزم،سوچا چلو دیکھیں زبان خلق۔

محلے میں دیکھا بزرگ بیٹھے ہوئے ہیں چلو بزرگوں کی صحبت میں بیٹھتے ہیں کیا کہتے ہیں سنتے ہیں۔

ارے خدا غارت کرے ان کو بزدل نہتے عوام پر حملہ کرتے ہیں،ارے خلیل یہ کیا ہو رہا ہے ہر طرف دھماکے

لاشیں،زخمی اور پھر قیمتی جانون کا ضیاء  کون سی قیمتی جان چلی گئی ارے اتنے لوگ مر گئے اور تو کہ 

رہا ہے کونسی قیمتی جان یہ جو اتنے لوگ شہید ہو گئے ان کی بات کر رہا ہوں،ہاہاہا کیا بات ہے ؟

ہنس رہا ہے ارے بھائی ہم سب کیڑے مکوڑے ہیں کون سی جان،مر گئے اور مرتے رہیں گے۔

کیسی باتیں کر رہا ہے دیکھا نہیں آج چیف آف آرمی اسٹاف نے کیا کہا ہے،کیا کہ دیا۔ابے گھامڑ

اک گھنٹے میں یہ دوسرا بیان ہے پہلے کہا بس بہت ہو چکا اب نہیں کرنے دینگے،خون کے ہر قطرہ

کا حساب لیا جائے گا اور پھر دیکھا افغانستان کی سرحدیں بند کر دیں اور افغانستان کو کہ دیا ہے۔

ان کو خود ختم کر دو ورنہ ہمارے حوالے کر دو ۔یہ بہت بہادر چیف ہے دیکھا کسی سے نہیں ڈرتا؟

رات کو سنا نہیں ٹی- وی پر شیریں مزاری کیاکہ رہی تھی۔کیا کہ رہی تھی ہمارے ادارے کیا کر رہے

ہیں اور جنرل شعیب سے کہ رہی تھی آپ لوگ بلوگر کو تو راتوں رات غائب کر دیتے ہو اور دیکھا

پھر امجد صاحب کہ رہے تھے یہ آپ الزام لگا رہی ہیں،ہم نے نہیں کیا پھر کس نے کیا اسکا جواب

نہ تھا نہ دیا ارے کیا یہ ایم -کیو-ایم میں چلی گئی،کب ہوا یہ ابے نہیں اس کو کہتے ہیں کیا کہتے ہیں؟

زبان خلق کو نقرہ خدا سمجھو۔اچھا اچھا یعنی اب ان کی سمجھ میں بھی آ گیا لیکن یار یہ بتا کیا بتاؤں

وہ رات جنرل شعیب کہ رہے تھے اتنے دہشت گرد پکڑے گئے ازیر بلوچ،ڈاکٹر عاصم مگر کچھ نہیں ہوا

اور کہ رہے تھے فوجی عدالتوں کی بات کرو تو آپ مخالفت کرتی ہیں۔ہم نے ثبوت دے دیے ہیں اور بتا

بھی دیا ہے دہشت گردی کے لئے افغانستان کی زمین استعمال ہو رہی ہے اور دہشت گرد وہاں سے کاروائی

کر رہے ہیں اور کیا کریں ارے بھائی وہ حملہ کر رہے ہیں 8 ہو چکے ہیں اور ابھی اور حملوں کے لئے تیار رہو

ارے وہ تو حملے کر رہے ہیں وہ تو انکا کام ہے ہم کیا کر رہے ہیں بس روز عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔

کون کب گھر سے جاتا ہے،کب آتا ہے،کس راستے سے جاتا ہے کس سے آتا ہے،کای کرتا ہے کیا کھاتا ہے

یہ سب پتا ہے اور یہ روز چھاپے اور چھپے مارتے ہی پریس ریلیز دہشت گردوں کا تعلق کلعدم تنظیم یا

سیاسی جماعت سے ہے اور 50،100 قتل کا گرفتار کرتے ہی پتہ چل جاتا ہے تو پھر عدالت میں کیوں

نہیں پیش کرتے ارے دہشت گرد ہیں تو لاؤ عدالت ثابت کرو اور لٹکا دو پھانسی پر،یہ لاپتہ کیوں کر

دیتے ہیں اور یہ جو اب تک ہزاروں دہشت گرد گرفتار کیے ہیں ان پر اب تک مقدمات کیوں نہیں چلاتے؟

رشید لگتا ہے پاگل ہو گیا ہے کسی نے سن لیا تو ابھی اٹھا کر لے جائیں گے پتہ بھی نہیں چلے گا اور ہم تو

جائیں گے بھی نہیں اور یا تو اندر ہوگا یا پھر گھر والے ڈھونڈتے پھریں گے یا کہیں سے لاش ملےگی ۔

مار دیں کس کس کو ماریں گے اور اب میں نہیں کہ رہا وہ روز بھٹی صاحب،سمیع،صابر اب تو سب ہی یہی

کہ رہے ہیں اور سنا نہیں بھٹی صاحب کہ رہے تھے سب نے مال لے لیا ہے کوئی آپریشن نہیں ہوگا ان کو بھی

اٹھاؤ نا کیا صرف غریبوں پر بس چلتا ہے اور اگر ملک میں‌ایسے ہی دھماکے ہوتے رہے تو پھر عوام نکل آئے

تو پھر کس کس کو مارو گے کیا پھر اپنی ہی عوام پر گولیاں چلاؤ گے،بھائی مٰن تو چلا مجھے نہیں مرنا میں

جا رہا ہوں جا چلا جا مگر یاد رکھنا بچےکا تو بھی نہیں سیکھ لےسچ بولنا اور سچ کاساتھ دینا ،جا جا جا۔






Thursday 8 December 2016

"تاریخ شہداء حق"

                                                      


 "تاریخ شہداء حق"

                                                    
تحریر: کنور اسالم شہزا  
                          
پاکستان کی تاریخ میں اک نئی تاریخ رقم کی جا رہی تھی۔یہ اعزاز بھی ایک ایسے شخص کو حاصل ہو رہا تھا۔جو نہ جاگیردار تھا،نہ وڈیرہ اور نہ ہی سرمایہ دار بلکہ متوسط طبقہ کے گھرانہ کے شخص محترمہ خورشید بیگم کا لخت جگر۔محترم نذیرحسین کا بیٹا،دادا محترم مولانا مفتی کا پوتا اور ناناحاجی رحیم بخش عالم دین کا نواسا۔
قائد و بانی محترم الطاف حسین کی والد 13 مارچ 1968 کو اور والدہ 15 دسمبر 1985 کو خالق حقیقی سے جا ملے۔
11 جون 1978 کا سورج طلوع ہو رہا تھا اور "قائد و بانی محترم الطاف حسین"  مظلوموں کی آواز بلند کر رہے تھے۔
جامع کراچی میں حق اور مظلوموں کی" آواز حق" بلند ہو رہی تھی،فضاؤں میں بکھر رہی تھی،دلوں میں اتر رہی تھی اور کانٹوں کی سیج سجا دی گئی تھی،واضع کر دیا تھا تحریک دینے کا نام ہے لینے کا نہیں،جو آئے سوچ کے آئے۔جیل۔تشدد،کوڑے،چیرے،گھر،مال دولت نہیں نظریہ سے پیار کرنا ہوگا یہ قافلہ حسین ہے،نہ وسائل ہیں،نہ کر و فر،نہ دولت خالی ہاتھ ہی چل پڑا تھا اور حق پرست آ رہے تھے،کم تھے،مگر ابھی تو پیغام کا آغاز ہے۔
اے،پی،ایم،ایس،او کے قیام کا اعلان ہو رہا تھا اور باطل کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو رہا تھا ،دبا دو،مٹا دو کی صدائیں،ہٹو،بچو کی آوازیں آنے لگیں اور روک لو ورنہ یہ ہمارے نظام،فلسفے کو مٹا دے گا۔
الطاف حسین کے تاریخ رقم کی مگر نیا انداز،پہیہ الٹا گھمایا طلبہ تنظیم سے ابتاء کی جبکہ پہلے سیاسی جماعت بنتی ہے اور اسکے بطن سے طلبہ تنظیم جنم لیتی ہے مگر اس شخص نے تو ابتداء ہی نئے انداز میں کی ؟
آواز حق بلید کی تو آزمائیشوں کا سلسہ شروع ہو گیا اسلامی جمیعیت طلبہ کے غنڈوں نے قائد تحریک پر قاتلانہ
حملہ کیا اور قائد تحریک شدید زخمی ہوئے اور تحریکی ساتھی اپنے قائد کو بچاتے ہوئے زخمی ہو گئے مگر اپنی جان پر کھیل کے قائد و بانی تحریک کو بچا لیا، سوچ یہ رہا ہوں،بات کہاں سے شروع کروں اور اختتام کہاں کروں۔
تاریخ کے اوراق پلٹوں یا نہیں،سوچتا رہا اور سوچ کو تحریک میں آنے والے ساتھیوں کی قربانیوں پر روک دیا۔
باطل قوتوں نے جب یہ دیکھا اس کارواں میں افراد جوق در جوق شریک ہو رہے ہیں تو منصوبہ بنا لیا گیا اور پھر تحریکی ساتھیوں پر تشدد،گرفتاری کا سلسلہ شروع ہو گیا اور پھر کارکنان کو قتل اور زخمی کیا جانے لگا تو قائد نے اپنے کارکنان کو بچانے کے لئے کراچی یونیورسٹی میں قائم کردہ اے - پی-ایم ایس- او کو ختم کرنت کا اعلان کر دیا کیونکہ کیا نہیں ہوا خواتین کارکنان کے ڈوپٹے کھیچ لئے گئے،مارا گیا،گھسیٹا گیا اور پھر علاقوں میں کام کرنے کا اعلان کر دیا اور 18مارچ 1984 کو مہاجر قومی موومنٹ کے قیام کا اعلان کر دیا، نیا دھماکہ۔
کراچی یونیورسٹی سے حسینیت کا یہ قافلہ قریہ قریہ،گلی گلی،محلہ محلہ۔شہر شہر پھیلتا چلا گیا اور قائد تحریک ہنڈا ففٹی پر لانڈی،کورنگی،ملیر،شاہ فیصل،نیو کراچی جاتے کارکنان سے ملتے پھر نشتر پارک کے جلسے نے ثابت کر دیا لوگ الطاف حسین کے ساتھ ہیں اور پھر شہادتوں کا تا متناہی سلسہ شروع ہو گیا۔
قصبہ کالونی میںلوگ گھروں میں سو رہے تھے یکایک شور بلند ہوا،چشم فلک نے دیکھا بڑی بڑی داڑھیوں والے
آئے پہلے گھروں پر بٹی کے تیل اور پیٹرول کو پھینکا گیا اور پھر بندوق سے گولی نکلی اور لمحہ بھر میں گھروں میں آگ لگ گئی،ماؤں کی چیخیں بلین ہو رہہیں تھی،شیر خوار بچے آگ کی لپیٹ میں تھے،بہنوں کے دوپٹے چل رہے تھے،بھائی،باپ،ماں،بیٹا،بچے،بچیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا ہو گیا کوئی مدد کو بھی نہیں آ رہا تھا۔
تحریی ساتھیوں کو اطلاع ملی اور خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی ساتھی آئے اور مدد کا کام شروع ہو گیا
آگ لگی ہوئی تھی سب خاموش تھے کسی مذہبی،سیاسی جماعت کا کوئی بیان نہیں آیالگتا تھا پاکستانی نہیں۔
پٹھان مہاجر فسادات کی بات کروں، شہادتیں ہی شہادتیں،سندھی مہاجر فسادات کروائے گئے تکہ یہ قافلہ رک جائے اور پھر بلدیاتی سیا ست میں کامیابی،قومی،صوبائی کی کامیابی نے نیندیں اڑا دی مگر ساتھ ہی قائد کہ رہے تھے مال نہ بنانا،خدا نہ بن جانا،فقیر کو امیر بنا دیا،گنے لگانے والے کو میئر بنا دیا جس پہ ہاتھ رکھا سونا بن گیا۔
شہادتوں کی طویل داستان ہے حیدرآباد میں چن چن کر مہاجروں کو کرائے کے قاتلوں کے ذریعے قتل کروا دیا،خون ہی خون ہر طرف خون، ایم۔کیو-ایم کے کارکنان حیدرآباد جا رہے ہیں سہراب گوٹھ آیا اور تڑ تڑ کی آوازیں آنے لگی، میرے برابر بیٹھے ہوئے اک ساتھی کی گردن میں گولی لگی اور میرے لباس پر میرے ساتھی کا خون گرم گرم گر رہا تھا میں دیکھ رہا تھا اور چند لمحوں میں وہ خالق حقیقی سے جا ملا،پھر بس کے اوپر بیٹھے ساتھی زمین پر آ گرے،ایمبولینس آ رہیں تھیں اور زخمیوں کو لے کر جا رہیں تھی اور شہید ہونے والے ساتھیوں کو اٹھایا جا رہا تھا،کس کا ذکر کروں کس کو بھول جاؤں میری بہن جبین باجی گھر میں تھیں گولیاں چل رہیں تھیں اور اک گولی آئی اور میری بہن کو لگی اور چند لمحوں بعد خالق حقیقی سے جا ملی، قافلہ حیدرآباد پہنچا تو پھر گولیاں چلیں پھر لاشیں،زخمی،جلسہ شروع ہوا پھر فائرنگ اور پھر سلسلہ چلتا رہا نہ رکنے والا اور آج تک چل رہا ہے۔ آنکھیں دیکھ رہی ہیں پاکستان اسٹیل میں احتجاج ہو رہا ہے اک دم سرکاری اہل کاروں نے ڈائریکٹ فائر کر دیا گولیاں میرے اور ساتھیوں کے آس پاس گزر رہی تھی یک دم ساتھیوں کو گولیاں لگیں اور کچھ شہید اور کچھ زخمی ہو گئے اور کچھ معزور اور آج تک معذور ہیں،کون سی جگہ ہے جہاں میری تحریک کے شہداء نہیں اور کون کون نہیں۔بہنیں،بھائی،مائیں،بیٹے،بیٹیاں،باپ کون شہید نہ ہوا اور یاد ہے مجھے میرے بزرگوں کو پوری رات کھے آسمان کے تلے آنکھوں پر پٹی باند کر اور قمیضیں اتار کر ان سے آنکھوں کو باند دیا گیا یہ بزرگ ایم۔کیو۔ایم کے کارکنان نہیں تھے عام لوگ تھے مگر جرم یہ تھا کہ مہاجر تھے،کسی وڈیرے کے بیٹے نہیں تھے،خان نہیں تھے جرم یہ تھا کہ مہاجر تھے پھر یہ قافلہ چلتا رہا اور پھر ماروائے عدالت قتل کئے گئے اور پھر میرے ساتھیوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑی باند کر بھاگنے کو کہا اور پھر گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا اور 15 ہزار کہ دینا بہت آسان ہے کسی کو گھر سے اٹھایا گیا،کسی کو راستے سے کسی کو اٹھایا اور غائب کر دیا گیا ارے یقین نہیں آتا
دیکھ لو"یاد گار شہدائے" اور یاسین آباد کے قبرستان کراچی،حیدرآباد،میرپور،اندرون سندھ کے قبرستانوں میں ہر جگہ میری تحریک کے شہداء ملیں گے اور بہت ایسے سپاہی ہیں جن کا کوئی سراغ نہیں ،کون سا ظلم ہے جو ہم پر نہیں کیا گیا،چیرہ،ماروائے عدالت قتل،لاپتہ اور یہ سلسلہ چل رہا ہے چلت ارہے گا قائد تحریک کی قیادت میں، میرا غرور،میرا فخر ہے "الطاف حسین" تم غدار کہو،را کا ایجنٹ کہو،ملک دشمن کہو غم نہیں ،ہم تو حق کے سپاہی ہیں یہ الزام ہر حق پرست پر لگتے رہے ہیں،لگتے رہیں گے،لگاتے رہو ہم آگے بڑھتے رہیں گے ۔
18 مارچ 1984 سے 9 دسمبر 2016 تک ہم یہ سفر الطاف حسین کی قیادت میں طے کرت چلے آئے ہیں ۔
کل 9 دسمبر ہے یوم شہدائے متحدہ قومی موومنٹ،قائد کے سپاہوں کی شہادت کا دن اور ہم سب کل اپنے شہداء کو سلام عقیدت پیش کرنے انشااللہ جائیں گے ضرور جائیں گے اگر زندہ رہے اور اگر میں مر گیا تو وہ جائیں گے جو زندہ ہونگے،دعا کریں گے،بخشش کی دعائیں کریں گے،فاتح خوانی کریں گے،پھولوں کی چادر چڑھائیں گے اور اپنے رب کے حضور ان کی مغفرت کے لئے دعائیں کرئیں گے اسلئے کہ ان کی وجہ سے ہی آج تحریک اس مقام پر ہے۔
دعا: اے اب کریم تو معبود ہے،کریم ہے،رحیم ہے ان کی مغفرت فرما ان کی خطاؤں کو معاف فرما،ان کے گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرما۔اے اللہ ہم سب کو توفیق دے ہم ان کے اہل خانہ کا خیال رکھیں ،اے رب ہم کمزور ہیں،ناتواں ہیں،ہمیں حوصلہ دے،صبر دے اور ہمیں بھی راہ حق پر چلتے ہوئے موت دے۔آمین۔ثمہ آمین۔
سلام اے شہداء تم پر،تمھارے گھر والوں پر،تم عظیم ہو اور عظیم رہو گے،ہمیں فخر ہے تم پہ،سلام تم پر سلام۔






Monday 21 March 2016

"تمام تحریکی ساتھیوں سے گرارش"

           "تمام تحریکی ساتھیوں سے گرارش" 

 وہ تمام ساتھی جوبانی اور قائد تحریک اور محترم الطاف حسین بھائی کو اپنا قائد مانتے ہیں

قائد کی باتوں کو سمجھیں کوئے ایسی تحریر تصویر نہ شیئر کریں

             جس سے تحریک کو نقصان پہنچے ۔


قائد ہماری وجہ سے پریشان رہتے ہیں عہد کریں قائد کی دی گئی ہدایات کے مطابق اپنی زندگی

گرازیں گے اگر پہلے ایسا نہیں کرتے تھے تو اب کرنے لگیں ہم صرف الطاف بھائی کے ہیں ۔


قائد کے دیے گئے فکر اور فلسفہ پر عمل کریں پھردیکھیں میزل کیسے آپکے قدموں میں ہوگی۔

                                                        فرمان قائد


طاقت کو خدا کا عطیہ سمجھو خود کو خدا مت سمجھو

اگر صرف اس فرمان کو اگر ہم سمجھ جائیں تو سب سمجھ آ جائے گا ۔

    اس میں فلسفہ ہے پیغام ہے پھر قائد کو یہ نہیں کہنا پڑے گا 

چائنہ کٹنگ میں کون کرتا ہے یا رابطہ کمیٹی میری بات نہیں سنتی

مجھے پیسہ بنانے کی مشین سمجھا ہوا ہے میں قیادت سے دستبردار ہوتا ہوں

آئیے آج سے عہد کریں اب ہم ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے قائد کو تکلیف ہو۔ آمین ۔